Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

طغرل کا موڈ بدستور آف ہی رہا تھا وہ اسے گھر ڈراپ کرکے فیکٹری چلا گیا جہاں فیاض اس کا انتظار کر رہے تھے ۔ 
پری نے واچ مین اور ملازمہ کی مدد سے سارا سامان دادی کے کمرے میں رکھوادیا، ویسے بھی سامان اتنا تھا کہ وہ پرائیویٹ سوزوکی میں لوڈ کروا کر لانا پڑا اس کے باوجود بھی خاصا سامان کار کی ڈگی اور بیک سیٹ پر رکھ کر لانا پڑا تھا۔ 
صباحت نے اپنے روم کی کھڑکی سے اس کو سامان ملازموں سے اندر رکھواتے ہوئے دیکھا تھا ان کے ماتھے پر پڑیں شکنوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا تمام سامان اندر منتقل ہونے کے بعد وہ پردہ برابر کرکے وہاں سے ہٹ گئی تھیں اور وہاں بیٹھی ناخنوں پر کیوٹکس لگاتی عادلہ سے طنزیہ لہجے میں مخاطب ہوئیں۔
 
”وہ دیکھو …کس قدر شاپنگ کرکے آئی ہے ایک دن میں ہی سارا جہیز خرید کر لے آئی ہے عائزہ کے لیے ویسے کس قدر معصوم بنتی ہے گویا اس کو کوئی خبر ہی نہیں ہے کسی چیز کے بارے میں“
”جب ہاتھ میں پیسہ ہوتا ہے نا ممی! پھر اناڑی بھی کھلاڑی بن جاتے ہیں، پری کے ساتھ طغرل گیا تھا اور یقینا بل تو وہ ہی ادا کر رہا ہوگا۔


پری کو جو اچھا لگتا گیا ہوگا وہ خریدتی گئی ہوگی پھر جانے سے پہلے ہر چیز کے لیے دادی نے اس کو گائیڈ کیا ہوگا اور اگر کہیں اس کو پریشانی ہوئی بھی تو وہ کال پر دادی سے گائیڈ لائن لیتی رہی ہوگی“عادلہ اپنے مشغلے میں مگن انہیں سمجھانے لگی تھی۔

 
”ہوں، یہ خوب ہے بیٹی میری ہے اس کی شادی کی تیاری کا حق میرا ہے اور اس حق کو ادا کر رہی ہے وہ پری! سوتیلی بہن…جو نامعلوم کس دل سے سامان لائی ہے ؟سامان میری عائزہ کو برتنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں، سوتیلے رشتے سوتیلے ہی رہتے ہیں،،سخت بے اعتمادی و تنفر بھرا ہوا تھا ان کے لہجے میں ۔ 
”خوا مخواہ آپ خون جلارہی ہیں ممی! یہ سب پری دادی اور پاپا کے کہنے پر کر رہی ہے ۔
ان لوگوں کی مرضی سے ہورہا ہے“اسی لمحے عائزہ اندر آئی اور صباحت سے گویا ہوئی ۔ 
”ممی! خیرون دادی کا پیغام لے کر آئی تھی وہ بلارہی ہیں آپ کو“
”ہونہہ!ً خیال آگیا ان کو میرا ؟ڈرامہ باز نہ ہو تو“وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔ عائزہ نے کھڑے کھڑے ہی عادلہ کی مصروفیت کا جائزہ لیا اور کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی ۔ 
”کہیں جانے کی تیاری ہے تمہاری عادلہ!،،
”ہوں! شیری نے لانگ ڈرائیو کا پروگرام بنایا ہے اس کے ساتھ جاؤں گی“وہ ناخنوں پر پھونک مارتی ہوئی کھڑی ہوکر بولی۔
 
”شیری بھائی کیسے ہیں ؟میرا مطلب ہے ان کا ایٹی ٹیوڈ کیسا ہے تمہارے ساتھ ؟“
”شیری…ہاؤ سویٹ، بے حد ہمبل ہے ، بہت کیئرنگ اور پیار کرنے والا بندہ ہے وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے“
”تم سے ؟“عائزہ کا لہجہ طنز و تضحیک سے بھرا تھا۔ 
”تم یقین کرتی ہو اس کی محبت پر عادلہ؟“عادلہ المارے سے کپڑے نکالتے ہوئے اس کی طرح رخ کرکے گویا ہوئی ۔
 
”بالکل! شیری مجھے ٹائم دے رہا ہے، میری پسند ناپسند کا اس کو بے حد خیال رہتا ہے ۔ پسند کرتا ہے مجھ کو پھر بھلا میں اس کی محبت پر یقین کیوں نہیں کروں“وہ منہ بنا کر بولی۔ 
”پسند کرنا الگ بات ہوتی ہے عادلہ! محبت کرنا الگ جذبہ ہے مائنڈ اٹ! میرا خیال ہے شیری بھائی پری کو پسند کرتے ہیں اور یہ احساس تم کو بھی ہے“
”پری…پری…پری! ہونہہ! میرے اختیار میں ہو تو اس کو اپنے گھر سے باہر نکال کر ہمیشہ کے لیے دروازے بند کرلوں اور تم عائزہ! تم میری بہن ہوکر پری کی سائیڈ لے رہی ہو؟یہ جانتے ہوئے کہ میں شیری سے محبت کرنے لگی ہوں“ وہ بری طرح عائزہ سے بدظن ہوئی ۔
 
”محبت…“اس کی آواز بھرا گئی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ۔ 
”اس دور میں محبت کا نام رہ گیا ہے باقی، احساسات مر گئے ہیں، محبت فقط ایک سے ہوتی ہے، جس کے لیے جیا جاتا ہے جس کے لیے مرا جاتا ہے اب تو محبت کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے“عائزہ کی نگاہوں میں راحیل کے سنگ گزارے وقت کے وہ تمام مناظر روشن تھے، جس میں وہ اس کے ساتھ خود کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی سمجھتی تھی ان دنوں راحیل کے علاوہ کوئی اچھا نہیں لگتا تھا ۔
گھر آکر بھی اس کے ساتھ گزارے وقت کے تصور میں گم رہتی تھی اور تصورات کی وہ دنیا بہت حسین لگتی اور اب وہ سب یاد آنا کسی اذیت سے کم نہیں تھا۔ کل جن ملاقاتوں کو وہ زندگی کا حاصل سمجھتی تھی ۔ آج وہ شرمساری، ذلت و ندامت کے درد میں ہمہ وقت مبتلا رکھتی تھیں کل تک جن باتوں کی اس نے پروا نہ کی تھی آج وہ تمام بے پروائیاں اس کو کچوکے لگاتی تھیں۔
 
”محبت کیا ہوتی ہے یہ تم مجھے سمجھاؤگی ، اب تک جس محبت کی خاطر مری جارہی تھیں، آج اس محبت سے مجھے باز رکھنے کی کوشش کر رہی ہو“
”جس کانٹوں بھری راہ سے میں گزری ہوں، نہیں چاہتی تم بھی ان سے گزرو“
”اپنے مشورے اپنے پاس رکھو تم مجھے ضرورت نہیں ہے ان کی ہونہہ! خود نے اپنے دل کی ہر آرزو پوری کی، گھر کے زیور تک چرا کر اس آوارہ راحیل کو دے آئی اور مجھے سبق دینے کی سعی کر رہی ہو“عادلہ نے واش روم کی جانب بڑھتے ہوئے تحقیر بھرے لہجے میں کہا۔
 
”ضروری نہیں ہے کسی گرے ہوئے کو دیکھ کر آپ بھی گرجائیں ، دانش مندی تو یہی ہے کسی کو ٹھوکر کھاتے دیکھ کر آپ خود سنبھل جائیں“عائزہ نے دکھ سے سوچا تھا۔ 
###
دادی کی وسیع و عریض آرام گاہ بڑے، چھوٹے، درمیانے کارٹنز سے بھری ہوئی تھی، وہ صوفے پر بیٹھی تسبیح پڑھتے ہوئے صباحت کا انتظار کر رہی تھیں، پری بیڈ شیٹ درست کر رہی تھی سارا دن خریداری کرنے کے باوجود بھی اس کے چہرے پر تھکن کے تاثرات ندارد تھے ۔
 
”آپ نے مجھے بلایا ہے اماں جان !“صباحت اگڑی گردن اور سخت خفگی بھرے انداز میں وہاں آکر ان سے گویا ہوئی ۔ 
”ہاں! یہ سارا سامان اچھی طرح دیکھو اور بتاؤ کچھ رہ تو نہیں گیا ہے تاکہ جو رہ گیا ہے وہ بھی ہاتھوں ہاتھ منگوالیا جائے“اماں ان کے سرد مزاج کو نظر انداز کرکے رسانیت آمیز لہجے میں گویا ہوئیں۔ 
”میں کیوں دیکھوں بھلا ؟جب میری بچی کی شادی کی تیاریوں پر میرا حق نہیں ہے تو پھر میں یہ دکھاوا بھی کیوں کروں ؟اس مکار لڑکی کو آپ میرے مقابل لے کر آئی ہیں اماں! اب اس کو ہی میری جگہ دیجیے گا ۔
میں اب کسی کام میں آگے بڑھنے والی نہیں ہوں“وہ پری کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولیں۔ 
”کوئی تمہاری جگہ کیوں لے گا صباحت! افسوس تو اس بات پر ہے شادی کے پچیس سال بعد بھی تم فیاض کے دل میں وہ جگہ نہ بناسکیں جو خاوند کے دل میں اس کی بیوی کے لیے ہوتی ہے“
”فیاض نے دل رکھا ہی کہاں ہے اپنے پاس اماں جان !“ان کی جلتی گھورتی نگاہوں کا ہدف بدستور پری پر تھا۔
 
”وہ ڈائن، چڑیل اس گھر سے جاتے جاتے ان کا دل بھی لے گئی خود تو دوسرے مرد کے ساتھ عیش سے زندگی گزار رہی ہے اور یہاں مجھے …“
”چپ ہوجاؤ صباحت! آخر تم کس دن مثنیٰ کو بھولوگی ؟“صباحت کی بات قطع کرکے وہ سخت لہجے میں گویا ہوئیں۔ اپنی ماں کے ذکر پر پری کا دل کسی گھائل پرندے کی مانند پھڑپھڑانے لگا۔ 
”تمہاری بے وجہ کی جلن اور سوچے سمجھے بغیر بات کرنے کے انداز نے تم کو وہ عزت حاصل نہیں ہونے دی جو اس گھر کی بہو بننے کے بعد تمہارا حق تھی ، سسرال اور خاوند کی نگاہوں میں عزت پانے کے لیے بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
عزت نفس مجروح ہوتی ہے سب بھگتنا پڑتا ہے“
”دادی جان !میں خیرون کو چائے کا کہہ کر آتی ہوں“پری کو اس وقت وہاں اپنی موجودگی مناسب نہیں لگی ۔ 
”ہاں کہہ دو اس کو چائے لے آئے اور ذرا طغرل کو بھی دیکھ لو، آفس سے آکر سیدھا کمرے میں لیٹ گیا ہے سارا دن تمہارے ساتھ مارا مارا پھرا ہے بازاروں میں، تھکن ہوگئی ہوگی، کھانے پینے کا پوچھ لو اس سے“
”جی اچھا! میں خیرون سے پوچھوالوں گی“
”خیرون سے کیوں ؟تم کیا پیروں میں مہندی لگا کر بیٹھ جاؤ گی ؟کچھ احساس کرلو کتنا کام آیا ہے بچہ! سارا دن تو شاید فیاض بھی خریداری نہ کرواتا تمہیں، اتنا ساتھ دیا ہے اس لڑکے نے تمہارا“حسب عادت وہ طغرل کی حمایت میں اس کو سناگئیں۔
 
”ہاں ہاں، مجھے تو آپ کے لاڈلے کے پاؤں دھو دھو کر پینے چاہئیں، بڑا احسان عظیم کیا ہے میری جان پر“وہ دروازے سے نکلتے ہوئے سوچ رہی تھی وہ صباحت کا لحاظ کرگئی ورنہ ان کو جتاتی ضرور کہ وہ خریداری اپنے لیے کرکے نہیں آئی ہے عائزہ جتنی اس کی بہن ہے، اتنی ہی طغرل کی بھی ہے ۔ 
”بس اب خوامخواہ کی اکڑ ختم کرو آکر سامان دیکھو، یہ سب فیاض کی مرضی سے ہورہا ہے جس میں سارا قصور تمہارا ہی ہے“اس نے باہر نکلتے ہوئے اماں جان کو کہتے سنا اور اس کو یقین تھا صباحت زیادہ دیر خود کو روک بھی نہ سکیں گی ، شاپنگ ان کی کمزوری تھی ۔
خیرون کو چائے بنانے کا کہہ کر وہ کوریڈور عبور کرکے اپنے اس کمرے کی طرف چلی آئی جو کافی عرصے بعد ایک رات کے لیے اس کے تصرف میں آکر پھر چھینا جاچکا تھا چند لمحے وہ گیٹ کو دیکھتی رہی، پھر ناک کیا، دروازہ کھلا اور ساتھ سگریٹ کی ناگوار بو اور دھوئیں نے اس کا استقبال کیا وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اندر داخل ہوئی۔ طغرل کھڑکیوں کے شیشے کھولنے لگا تاکہ دھواں ہوا میں تحلیل ہو۔
 
”او مائی گاڈ! آپ اس قدر اسموکنگ کرتے ہیں طغرل بھائی ! میں ضرور دادی جان سے آپ کی شکایت کروں گی ، آپ کو معلوم ہے سگریٹ صحت کے لیے مضر ہے دادی… !،،اس کے باقی ماندہ الفاظ حلق میں ہی اٹک کر رہ گئے تھے طغرل نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ 
”شش…خاموش! کوئی الفاظ تمہارے منہ سے نکلنا نہیں چاہیے۔ میں نے تم کو خبردار کیا تھا مجھ سے اس لہجے میں بات مت کرنا“اس کی یہ حرکت بالکل غیر متوقع تھی ۔
پری جو بے تحاشہ دھواں دیکھ کر وہیں سے چیخ کر دادی کو بلا کر دکھانے کا ارادہ رکھتی تھی اس کے ہونٹ طغرل کے ہاتھ کی گرفت میں اس طرح مقید ہوئے تھے کہ جنبش بھی نہ کرسکے تھے ۔ 
”بہت اسمارٹ سمجھتی ہو خود کو ؟“وہ اس کی پھٹی پھٹی براؤن بے حد چمک دار آنکھوں میں دیکھتا ہوا استہزائیہ لہجے میں گویا ہوا۔ 
”ہروقت دادی جان کو میرے خلاف بھڑکانے میں لگی رہتی ہو“اس کے ہاتھ کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی پری کا دم گھٹنے لگا اور دل کی دھڑکن بڑنے لگی تھی ۔
 
طغرل اس کے بے مہر رویے سے اس بری طرح دلبرداشتہ ہوا کہ اس کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد وہ آفس بھی جانے پر خود کو آمادہ نہ کرسکا تھا، ایک اشتعال تھا، ایک بے چینی تھی، جو بری طرح اس کی خون کی روانی میں دوڑنے لگی ، اس کا دل بغاوت پر آمادہ ہورہا تھا۔ اس سنگ دل اور مغرور لڑکی کو کوئی ایسا سبق سکھانے پر جو اس کو تاحیات یاد رہے جس کو وہ بھول نہ سکے ۔
گھر آکر بھی وہ اسی کیفیت کا شکار رہا اور اپنی اس فرسٹریشن کو دھوئیں میں اڑانا چاہا تھا اور ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ وہ دشمن جان اپنے مخصوص انداز میں پھر سے چلی آئی تھی۔ 
”میں چاہوں تو تمہاری گردن ابھی یہیں دبادوں“پہلی بار پری کے دل میں انجانا سا خوف ابھرا تھا، بلیو پینٹ، وائٹ شرٹ میں اس کی حالت عجیب لگ رہی تھی، بال بے ترتیب تھے چہرے کی سرخی کا عکس اس کی آنکھوں میں بھی جھلک رہا تھا۔
 
اس کی گرم سانسیں وہ اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی، اس کے ملبوس کی پھوٹتی مہک اور فضا میں پھیلی سگریٹ کی بو اس کے حواسوں کو بوجھل کرنے لگی تھی، اس کو محسوس ہورہا تھا کسی بھی لمحے وہ بے ہوش ہوکر گر جائے گی ۔ 
”دادی جان سے شکایت کرو گی میری ؟“وہ اس کی بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تابڑ توڑ سوال کر رہا تھا۔ بتاؤگی ان کو میں بے تحاشا اسموکنگ کرتا ہوں ؟پری کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اس کی چلتی ہوئی زبان کو گویا ایک دم بریک لگا پری کی تکلیف کا اندازہ اس کو ہوا تو بے اختیار اس کا ہاتھ پری کے ہونٹوں سے ہٹ گیا ہاتھ ہٹتے ہی پری بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی ۔

   1
0 Comments